ٹرمپ نے وینزویلا کا ایئر اسپیس مکمل بند کیوں کر دیا؟

Why did Trump completely close Venezuelan airspace

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے وینزویلا کے پورے ایئر اسپیس کو “مکمل طور پر بند” قرار دے دیا۔ یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور وینزویلا کی سوشلسٹ حکومت پر ایران اور روس کے ساتھ خفیہ فوجی تعاون کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ یہ قدم وینزویلا کی “دہشت گرد سرپرستی” اور “امریکی مفادات کے لیے خطرہ” بننے کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے۔

گذشتہ چند ہفتوں سے وینزویلا کی فضائی حدود میں مشکوک پروازوں کی اطلاعات مل رہی تھیں۔ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق، ایرانی کارگو طیارے اور روسی فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کراکاس اور دیگر شہروں میں بار بار اتر رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ ان پروازوں میں جدید میزائل سسٹم، ڈرون ٹیکنالوجی اور ممکنہ طور پر یورینیم سے بھرپور سامان لایا جا رہا تھا۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا

“وینزویلا اب ایران اور روس کا اڈہ بن چکا ہے۔ ہم نے ان کا پورا ایئر اسپیس بند کر دیا ہے۔ کوئی بھی طیارہ جو وہاں اڑے گا، اسے مار گرایا جائے گا۔ امریکہ نے پہلے بھی ایسا کیا ہے اور دوبارہ کرے گا۔”

وینزویلا کے صدر نکلاس مادورو نے اسے “جارحیت کا کھلا اعلانِ جنگ” قرار دیا اور کہا کہ وینزویلا اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔ مادورو نے قومی ٹیلی وژن پر خطاب کرتے ہوئے کہا

“امریکہ ایک بار پھر ہماری آزادی چھیننا چاہتا ہے۔ ہمارے ایئر اسپیس پر کوئی پابندی نہیں لگ سکتی۔ ہمارے پاس ایس۔300 اور جدید ترین دفاعی سسٹم موجود ہیں۔ اگر کوئی امریکی طیارہ ہماری حدود میں داخل ہوا تو ہم اسے گرا دیں گے۔”

  • روس نے اس اقدام کو “بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنے اتحادی وینزویلا کے ساتھ کھڑا ہے۔
  • ایران نے بھی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یہ “امریکی دہشت گردی کا نیا باب” ہے۔
  • لاطینی امریکی ممالک میں تقسیم نظر آ رہی ہے۔ میکسیکو اور ارجنٹائنا نے تحمل کا مشورہ دیا جبکہ کولمبیا اور برازیل نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ماہرینِ قانونِ بین الاقوامی کے مطابق، کوئی بھی ملک دوسرے ملک کی فضائی حدود کو یکطرفہ طور پر “بند” نہیں کر سکتا، الا یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری ہو۔ تاہم، امریکہ عملی طور پر اپنے فوجی طیاروں اور نیٹو اتحادیوں کے ذریعے وینزویلا کی فضائی حدود کی نگرانی اور ممکنہ طور پر روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جیسا کہ اس نے 2019ء میں ایرانی طیاروں کے معاملے میں کیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اعلان دراصل ایک دباؤ کی حکمت عملی ہے تاکہ مادورو حکومت کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ کچھ ذرائع بتا رہے ہیں کہ وائٹ ہاؤس تیل کی پابندیوں میں نرمی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے بدلے بات چیت کے لیے تیار ہے۔

تاہم، اگر وینزویلا نے واقعی ایرانی یا روسی فوجی طیاروں کو اترنے کی اجازت دی تو یہ صورتحال تیزی سے جنگی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

ہماری ٹیم اس خبر پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔ جلد ہی تازہ ترین اپ ڈیٹس کے ساتھ حاضر ہوں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *